Tuesday 26 July 2011

علم غیب سے متعلقہ علوم


علم غیب سے متعلقہ علوم
فال گیری:
منفعت کے حصول اور دفع مضرت(نقصان)ہی ایسی اغراض ہیں جس کے لیے انسان ہر طرح کے جرائم کرتا اور جائز و ناجائز ذرائع اختیار کرتا ہے،حتی کی شرک بھی اسی لیے کرتا ہے۔فال کے تیروں سے فال نکالنابھی ایسا ہی ایک ذریعہ ہے جسے قرآن نے’’شیطانی عمل‘‘ کہہ کر حرام قرار دیا ہے۔
علم نجوم:
اس ذریعہ کے علاوہ غیب کے حالات معلوم کرنے کے لیے عرب میں مزید دو طریقے مروج تھے۔ایک یہ تھا کہ لوگ ستاروں کی گردش سے آئندہ کے حالات معلوم کرتے اور انسانی زندگی پر ان کی گردش کے اثرات کو تسلیم کرتےتھے اور یہ ایسا پرانا طریقہ تھا۔جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے بھی پہلے چلا آرہا تھا۔چنانچہ ؁ ۶ھ صلح حدیبہ کے سال)آپﷺ نے حدیبہ کے مقام پر چودہ سو صحابہ سمیت پڑاؤ ڈالا۔تو ایک رات بارش ہوئی۔توآپﷺ نے صبح کی نماز کے بعد صحابہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں جس نے یہ سمجھا کہ بارش اللہ کے فضل اور اس کی مہربانی سے ہوئی ہے وہ مجھ پر ایمان رکھتا ہے اور ستاروں کا منکر ہے اور جس نے یوں کہا کہ فلاح ستارے کے فلاں برج اور فلاں نچھتر میں داخل ہونے سے بارش ہوئی اس کا ایمان ستاروں پر ہے اور اس نے میرے ساتھ کفر کیا(۱)
اور اس کا نام نجوم پرستی ہے جس میں اہل بابل گرفتار تھے اور حضرت ابراہیمؑ نے اس قسم کے شرک کا بھی رد کیا۔
کہانت:
عرب میں تیسرا مروج طریقہ کہانت تھا۔کاہن حضرات لوگوں کو غیب کی خبریں بتا کرتے تھے اور معاشرہ کے معزز اور معتبر افرادشمار ہوا کرتے تھے۔اس غرض کے لیے بڑے بڑے لوگ دور دور سے ان کے آستانوں پر آتے اور گرانقدر نذرانے پیش کرتے تھے اور حد یہ ہے کہ بعض کاہنوں سےبعض اہم مقدمات کے فیصلے بھی کروائے جاتے تھے،ایسا عقیدہ چونکہ اللہ پر توکل اور ایمان کے منافی ہے۔اس پیشہ اور اس سے حاصل ہونےوالی کمائی کو رسول اللہﷺ نے حرام قرار دیا (۲)
آپﷺ نے فرمایا:’’جو کوئی غیب کی خبریں بتانے والے کے پاس جائے اور اس سے پوچھے،اس کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی‘‘(۳)
آپﷺ نے فرمایا:’’جو کوئی کسی کاہن کے پاس جا کر دریافت کرے اور پھر اس کی تصدیق کرے تو اس نے اس سے کفر کیا جو محمدﷺ پر نازل ہوا‘‘(۴)
رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’نجومی کاہن ہے اور کاہن ساحر(جادوگر) کی ہے اور ساحر کافر ہے‘‘(۵)
حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا ایک غلام تھا جو روزانہ خراج کی ایک مقررہ رقم ادا کرتا تھا۔ایک دن وہ غلام کھانے کی کوئی چیز لایا جس میں حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کچھ کھا لی اور وہ غلام آپ سے کہنا لگا’’پتاہے یہ کیا چیز ہے اور کیسی ہے؟ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے کہا بتاؤ تو،اس نے کہا میں زمانہ جاہلیت میں کہانت کیا کرتا تھا حالانکہ میں اچھی طرح جانتا بھی نہ تھا اور دھوکے سے کام چلاتا تھا سو آج کسی نے اجرت کے طور پر مجھے یہ چیز دی ہے اور وہی آپ نے کھائی ہے،یہ سن کر حضرت ابو بکر صدیقؓ نے منہ میں انگلی ڈال کر قے کر دی اور پیٹ میں جو کچھ تھا وہ نکال دیا۔(۶)
مذکورہ روایت میں کاہن کی کمائی کی حرمت واضح کی گئی ہے۔
اس آیت اور احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ جو پیشے بھی غیب کی خبریں دنیے سےتعلق رکھتے ہیں وہ حرام ہیں خواہ وہ علم نجوم ہو یا جوتش،رمل و جفر،کہانت سے متعلق ہوں
حواشی:
(۱)صحیح بخاری۔کتاب المغازی،حدیث نمبر:۴۱۴۷
(۲)صحیح بخاری،کتاب البیوع،حدیث نمبر:۲۲۳۷
(۳)صحیح مسلم،کتاب تحریم الکھانۃ و ایثان الکھان،حدیث نمبر:۲۲۳۰
(۴):ابوداؤد،کتاب الطب،باب فی الکاہن ،حدیث نمبر:۳۹۰۴
(۵) مشکوۃ کتاب الطب و الرقی،حدیث نمبر:۴۶۰۴
(۶)صحیح بخاری ،کتاب مناقب الانصار،باب الایام الجاھلیۃ،حدیث نمبر:۳۸۴۲

Wednesday 20 July 2011

::::::: عید اگر اس طرح منائی جائے تو کیا حرج ہے ؟ :::::::

::::::: عید تو خیر پر باقی رہنا اور اطاعت پر ثابت رہنا ہے :::::::
روزوں کے دن گذرنے ہی والے ہیں ، اور ان سے پہلے قیام کی راتیں بھی گذر گئیں ، خوش نصیب تو وہ ہے جس نے اپنے رب سے تعلق جوڑا اور اُسے جوڑ لیا گیا ، جس نے عمل کیا اور اسے قبول کرلیا گیا ، اور بدنصیب وہ ہے جس نے اپنے رب سےتعلق نہیں جوڑا اور کٹا ہی رہا ،اوراللہ کی رحمت سے دُور ہی رکا رہا اور دھوکے کا شکار ہوا ،
کل پردے اُٹھ جائیں گے ، اور لکھا ہوا پڑھا جائے گا ، پھر اس وقت نیک اعمال کرنے والے مؤمن خوش ہوں گے اور کوتاہ کار مسلمان حسرت کا شکار ہوں گے ((((( وَسَيَعلَم الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنقَلَبٍ يَنقَلِبُونَ ::: اور جلد ہی جان لیں گے ظلم کرنےو الے کہ کس کروٹ پلٹیں گے ))))) سورت الشعراء /آیت 227 ،
پس اے وہ مسلمان جس نے رمضان میں بہترین طور پر اپنے رب سے وفا کی، شوال میں بھی ویسے ہی رہیے گا ، اور اس کے بعد بھی کہ تمام مہینوں کا رب ایک ہی ہے اور وہ ہی اکیلا ہمیشہ ہر حال اور وقت میں آپ کے ظاہری اور باطنی اعمال کو دیکھتا ہے ، خیال رکھیے گا کہ سب سے بڑا حماقت زدہ نقصان یہ ہے کہ آپ اپنے ہاتھوں بنایا ہوا اپنا گھر خود ہی تباہ کر دیں ، خوب محنت کر کر کے جو کچھ بنایا ہو اسے خود ہی ختم کر دیں ((((( وَلاَ تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَت غَزلَهَا مِن بَعدِ قُوَّةٍ أَنكَاثاً ::: اور تُم لوگ اس عورت کی طرح مت ہو جانا جو اپنے بٹے ہوئے دھاگے کو طاقتور ہونے کے بعد (خود ہی) کھول دیتی ہے ))))) سورت النحل/ آیت92 ،
پس عید کی اصلی خوشی یہ ہے کہ ہم اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت پر قائم رہیں نہ کہ خوشی وہ ہے جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نافرمانیوں میں محسوس ہوتی ہے ،

::::::: عید کی شرعی حقیقت ::::::::
عید اللہ کے اس دین کے ذریعے کافروں سے خود کو ممتاز کرنے کا ایک ذریعہ ہے ،جس دین کو اللہ نے مکمل فرما دیااور ہمارے لیے اس کے دین ہونے کو پسند فرما لیا ، اور عید سابقہ ادیان اور غیر مسلم قوموں کی عادات سے غنی ہونے کا ایک ذریعہ ہے ،
اور وہ یوں کہ انس ابن مالک رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ ””” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو اھل مدینہ کے دو دن ایسے تھے جن میں وہ لوگ کھیل کود کیا کرتے تھے(یعنی خوشی منایا کرتے تھے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے دریافت فرمایا ((((( مَا ھَذان الیومان ::: یہ دو دِن کیا ہیں ؟ ))))) لوگوں نے جواب دیا ””” ہم جاھلیت میں ان دونوں دِنوں میں کھیل کود کیا کرتےتھے (یعنی خوشی منایا کرتے تھے ) “““ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ((((( إِنَّ اللَّهَ قد أَبدَلَكُم بِهِمَا خَيرًا مِنهُمَا يوم الأَضحَى وَيَومَ الفِطرِ ::: بے شک اللہ نے تُم لوگوں کے لیے ان دو دِنوں کو ان سے زیادہ خیر والے دو دِنوں سے بدل دیا ہے (اور وہ نئے دو دِن) اضحیٰ (دس ذی الحج ، قربانی کا دن، جسے عام طور پر بڑی عید کہا جاتا ہے ) کا دِن ، اورفِطر (یکم شوال ،رمضان کے بعد والی عید جسے عام طور پر چھوٹی عید کہا جاتا ہے ) کا دِن ))))) سنن ابی داؤد /حدیث 1134 / کتاب الصلاۃ /باب 246 ، اِمام الالبانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ،
تو یہ دونوں عیدیں ایسا تہوار ہیں جو ہم مسلمانوں کو اللہ کی طرف سے دیےگئے ہیں ، اِن کے علاوہ کوئی عید ہمیں اللہ کی طرف سے نہیں دی گئی اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی طرف سے کوئی اور عید مقرر کی گئی ، لہذا ہمیں ان دونوں دِنوں کا تقدس برقرار رکھنا چاہیے اور یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ دن اللہ کی عطاء ہیں ، پس ان میں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی کی جانی چاہیے نہ کہ ناچ گانے ، بے حیائی کی محفلوں ، بے پردگی والی ملاقاتوں ، فضول خرچی کے کاموں ، اور وقت کی بربادی کے ذریعے اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانی کی جانی چاہیے ،
بلکہ ہمیں یہ چاہیے کہ ہم ان دونوں دِنوں میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا یہ فرمان ((((( وَلِتُكمِلُوا العِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُم وَلَعَلَّكُم تَشكُرُونَ::: اور تا کہ تُم لوگ (دِنوں کی) گنتی پوری کرو اور تا کہ اللہ نے تُم لوگوں کو جو ہدایت عطا فرمائی ہے اس ہر اللہ کی بڑائی بیان کرو اورتا کہ تُم لوگ (اللہ کا ) شکر ادا کرو ))))) سورت البقرة/ آیت 185، یاد رکھتے ہوئے ان دِنوں کو گذاریں ،
ہم مسلمانوں کی یہ دونوں عیدیں آسمانی ہیں ، سابقہ قوموں کی طرح خود ساختہ نہیں ،بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے قبل از اسلام کی عیدوں کے بدلے میں ایک عطاء ہیں جو ہمیں یہ سبق بھی دیتی ہیں کہ ان کے علاوہ اسلام میں کوئی عید نہیں، جو منائی جانی چاہیے ،
ان کی اس عظمت کے پیش نظر یقینا ً یہ سب مسلمانوں کے لیے انتہائی خوشی کے دن ہیں ، لیکن ، خوشی منانے کا ڈھب لازماً وہی ہونا چاہیے جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف سے اجازت یافتہ ہو نہ کہ خود ساختہ ، اور نہ ہی گناہ پر مبنی ،
عید الفِطر سے پہلے اللہ کی رحمت کے خاص مہینے میں کی جانی والی عبادات اور اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی کے لیے اپنے نفس پر جبر ایک بہت اچھی تربیت ہے کہ اس کے بعد بھی آنے والی عید اور اس عید کے بعد کے باقی تمام دن بھی اسی طرح اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی تابع فرمانی میں گذارنے کے لیے اپنی خواہشات پر قابو رکھا جائے اور یاد رکھا جائے یہ عید اللہ کی طرف سے دیا گیا ایک مقدس دن ہے ، کوئی ””” نافرمانیوں کا دن “““نہیں ، اور نہ ہی کوئی ایسا دن ہے جس میں خوشی کے نام پر اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانیاں کی جائیں ،
::::::: عید کے دن ، کھانے پینے ، اور خوشی منانے کے دِن :::::::
جی ہاں اللہ کی طرف سے عطاء کردہ صرف دو عیدوں کے دِن مسلمانوں کے لیے کھانے پینے ، اور خوشی منانے کے دن ہیں، لیکن یہ کام اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے کیے جائیں گے نہ کہ ان کی نافرمانی کرتے ہوئے ، لہذا ، کھانے پینے اور لباس و آرائش کے معاملات میں خاص طور پر اللہ کا یہ حکم یاد رکھنا چاہیے کہ ((((( يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُم عِندَ كُلِّ مَسجِدٍ وكُلُوا وَاشرَبُوا وَلاَ تُسرِفُوا إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ المُسرِفِین ::: اے آدم کی اولاد ہر نماز کے وقت اپنی زینت اختیار کیا کرواور کھاؤ اور پیؤاور فضول خرچی مت کرو بے اللہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ))))) سورت الأعراف/ آیت31،
اور عمومی طور پر ہر ایک معاملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا یہ فرمان یاد رکھنا چاہیے کہ ((((( مَن تَشبہہ بقومٍ فھو منھم ::: جس نے جس قوم کی نقالی اختیار کی وہ ان (یعنی اسی قوم میں سے ))))) ہی ہے سُنن أبو داؤد /کتاب اللباس /باب 4 لبس الشھرۃ ۔
اور اسی فرمان میں خوشی منانے کا معاملہ بھی ہے ، اس موضوع یعنی ’’’ خوشی منانے ‘‘‘ کے بارے میں بنیادی معلومات ’’’ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اور / پانچویں دلیل اور اسکا جواب ‘‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہیں ،
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری خیال کرتا ہوں کہ مذکورہ بالا باتوں اور نصیحتوں کا یہ مطلب اور مطلوب نہیں کہ ہم لوگ عید کو خاموشی سے ایک عام دین کے طرح گذاریں اور اس میں کسی قسم کے تفریح نہ کی جائے ، جی نہیں ، مطلب صرف یہ ہے اور مطوب بھی یہی ہے کہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود سےخارج نہ ہوا جائے ،
اس معاملے کو اچھی طرح سمجھنے کے لیے ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے یہ ایام کیسے گذارے اور ان کی موجودگی میں صحابہ رضی اللہ عنہم عید کیسے کیسے منایا کرتے تھے ؟
دیکھیے کہ عید کے روز ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اپنی امت کے کھیل کود ، جنگی مشقوں اور ورزشوں اور چھوٹی بچیوں کے ترنم انگیز طور پر صاف ستھرے کفر و شرک ، گناہ و بے حیائی سے پاک اشعار سنتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ،
جیسا کہ اِیمان و الوں کی والدہ محترمہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ """"" دخل عَلَيَّ رسول اللَّهِ صَلّی اللہ عَلِیہ وعَلی آلہِ وسلَّم وَعِندِي جَارِيَتَانِ تُغَنِّيَانِ بِغِنَاءِ بُعَاثَ ::: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم میرےپاس تشریف لائے تو اس وقت میرے پاس دو بچیاں أوس اور خزرج کی جنگوں کے واقعات کے اشعار گا رہی تھیں ،
فَاضطَجَعَ على الفِرَاشِ وَحَوَّلَ وَجهَهُ ::: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم بستر پر کروٹ کے بل لیٹ گئے اور اپنا چہرہ مبارک دوسری طرف فرما لیا ،
وَدَخَلَ أبو بَكرٍ فَانتَهَرَنِي وقال مِزمَارَةُ الشَّيطَانِ عِندَ النبي صَلّی اللہ عَلِیہ وعَلی آلہِ وسلَّم ::: اور (اس کے بعد) ابو بکر (رضی اللہ عنہ) داخل ہوئے اور مجھے ڈانٹا اور فرمایا شیطان کے باجے اور نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس ،
((((( فَأَقبَلَ ))))) عليه رسول اللَّهِ عليه السَّلَام فقال ((((( دَعهُمَا ))))) ::: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ((((( چہرہ مبارک ابو بکر کی طرف فرمایا ))))) اور اِرشاد فرمایا ((((( ان دونوں بچیوں کو چھوڑ دو (یعنی جو کر رہی ہیں کرنے دو) )))))،
فلما غَفَلَ غَمَزتُهُمَا فَخَرَجَتَا::: تو جب وہ بچیوں کی طرف سے غافل ہوئے میں نے ان بچیوں کو اشارہ کیا اور وہ دونوں باہر چلی گئیں ،
وكان يوم عِيدٍ :::اور وہ عید کا دن تھا ،
(اور اس دِن ہی ) يَلعَبُ السُّودَانُ بِالدَّرَقِ وَالحِرَابِ ::: کالے لوگ چمڑے کی ڈھالوں اور نیزہ نما (جنگی ہتھیاروں) سے کھیل رہے تھے ،
فَإِمَّا سَأَلتُ النبي صَلّی اللہ عَلِیہ وعَلی آلہِ وسلَّم وَإِمَّا قال ((((( تَشتَهِينَ تَنظُرِينَ ؟))))) :::تو ( اُس وقت ) یا تو نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے میں نے خواہش کا اظہار کیا تھا یا انہوں نے خود مجھ سے دریافت فرمایا تھا کہ ((((( کیا تُم دیکھنا چاہتی ہو ؟))))) ،
فقلت نعم ::: میں نے عرض کیا ، جی ہاں ،
فَأَقَامَنِي وَرَاءَهُ خَدِّي على خَدِّهِ ::: تو انہوں نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا فرمایا ، (اس طرح کہ) میری گال ان صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی گال مبارک کے ساتھ لگی ہوئی تھی ، ( کوئی اندازہ کر سکتا ہے امی جان عائشہ رضی اللہ عنھا و أرضاھا کی خوش نصیبی کا )
وهو يقول ((((( دُونَكُم يا بَنِي أَرفِدَةَ ))))) ::: اور نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم فرما رہے تھے ((((( اے ارفدہ کے بیٹو تم لوگوں پر یہ ضروری ہے (یعنی جنگی کھیل) )))))،
حتى إذا مَلِلتُ قال ((((( حَسبُكِ ؟ ))))) ::: یہاں تک کہ میرا جی بھر گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشادفرمایا ((((( (کیا) تمہارے لیے اتنا(دیکھنا) کافی ہے؟ )))))،
قلت نعم قال ((((( فَاذهَبِي ))))) :::میں عرض کیا ، جی ہاں ، تو اِرشاد فرمایا ((((( تو پھر جاؤ ))))) """""
صحیح البُخاری /حدیث 907 / کتاب العیدین /باب 2 ، صحیح مسلم /حدیث 892/ کتاب صلاۃ العیدین / باب4 ،
عید کی خوشیاں منانے کے جائز ذرائع میں یہ کام ہیں جن کا ذکر کیا گیا اور اس حدیث اور اس واقعے کی دیگر روایات کی روشنی میں عُلماء اُمت نے یہ قرار دیا کہ عید کے موقع پر چھوٹی بچیاں جو باقاعدہ گانے والیاں نہ ہوں ، دف بجا کر اگر ایسے شعر پڑھیں جن میں کسی قسم کا کفر شرک ،بے حیائی ،بے پردگی،اور سفلی جذبات کی برانگیختی نہ ہو تو یہ جائز ہے ،
اور اسی طرح مردوں کا ایسے کھیل کھیلنا جو جنگی مشقوں اور کاروائیوں کا مظاہرہ ہوں ، بھی جائز ہے ،
اللہ کی عطاء کردہ دو عیدوں کی خوشی اس طرح منایا جا سکتی ہے ، اُس طرح نہیں جس طرح آج ہم مسلمانوں کی اکثریت مناتی ہے کہ """ خوشی منانے """ کے نام پر شرعی قیود و حدود کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا اور اپنی ان غیر شرعی حرکات کو """ قومی زندہ دلی ""' سمجھا جاتا ہے ، جبکہ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانی زندہ دلی کی نہیں بلکہ مردہ دِلی کی علامت ہے ، کیونکہ زندہ وہ دِل ہوتے ہیں جو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم کی اطاعت اور فرمان برداری سے لبریز ہوتے ہیں ،
عید کی خوشیاں منانے کا ایک طریقہ زکوۃ الفطر ادا کرنا ہے کہ صاحب اِیمان اپنے رب کی رضا کے لیے اپنے غریب مسلمان بھائیوں بہنوں کو اس دن اچھا اور زیادہ کھانے کو مہیا کرتا ہے اور یقیناً اپنے دل میں ایک پر اِیمان خوشی پاتا ہے ،
اور اسی طرح قربان عید پر حاجی اور غیر حاجی اللہ کی راہ میں جانور قربان کر کے ان کا گوشت غریبوں تک پہنچا کر اپنے دِل و رُوح میں ایمان افروز خوشی پاتے ہیں ،
::::::: عید دُنیا اور آخرت کی راحت کے حصول کا دن ہے نہ کہ ضیاع کا ::::::
جی ہاں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے عطاء کردہ دونوں عید کے دن مسلمانوں کے لیے ، ، اللہ کو راضی کرنے والے اعمال کے ذریعے دُنیا اور
آخرت میں راحت اور سکون نفس کے حصول کے دن ہیں نہ کہ اللہ کو ناراض کرنے والوں کاموں کے ذریعے دُنیا اور آخرت کی خیر اور نیکوں کو ضائع کرنے کے ، پس خیال رکھیے کہ آپ اپنی عیدوں میں کیا کرتے ہیں ؟ کیا کماتے ہیں ؟ اور کیا گنواتے ہیں ؟
اگر تو آپ اپنا وقت اور مال ضائع کرنے والے کاموں میں مشغول نہیں ہوتے اور ان سے دُور رہتے ہیں تو اللہ کا شکر ادا کیجیے اور اُمید رکھیے کہ اللہ نے رمضان میں کیے ہوئے آپ کے صیام و قیام کو قبول فرمایا ہے ،
اور اللہ نہ کرے اگر آپ ان دِنوں میں اپنا مال اور وقت برباد کرنے والے کاموں یعنی اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی نافرمانی والے کاموں میں لگاتے ہیں تو یقین رکھیے آپ کے رمضان کے صیام و قیام بے ثمر رہے ہیں ، کیونکہ روزوں کا اصل مقصد آپ حاصل نہیں کر سکے جو کہ تقویٰ کا حصول ہے ،
::::::: عید اور تعلقات کی اصلاح ::::::
ہم اگر عید کے دنوں کو اپنے رشتہ داروں اور مسلمان بھائی بہنوں کے ساتھ بگڑے ہوئے تعلقات کی اصلاح اور اچھے تعلقات کی تقویت کے لیے استعمال کریں تو یہ خیر علیٰ خیر کے مصداق ہوگا ، اور عید کی خوشیوں میں ایک گونا گوں اضافہ ہو گا ،
ابو ایوب الانصاری رضی اللہ عنہُ سے رویات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فرمان ہے ((((( لَا يَحِلُّ لِمُسلِمٍ أَن يَهجُرَ أَخَاهُ فَوقَ ثَلَاثٍ يَلتَقِيَانِ فَيَصُدُّ هذا وَيَصُدُّ هذا وَخَيرُهُمَا الذي يَبدَأُ بِالسَّلَامِ ::: کسی مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی سے تین دن سے زیادہ ہجرت رکھے (یعنی بات چیت بند رکھے کہ) جب وہ دونوں ملیں تو یہ اُس سے رکا رہے اور وہ اِس سے رکا رہے ، اور ان دونوں میں سے خیر والا وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے ))))) صحیح البُخاری /حدیث 5882/کتاب الاستئذان /باب 9 ، صحیح مسلم /حدیث 2560 /کتاب البر والصلۃ و الآداب /باب8 ،
کیا ہی اچھا ہو کہ ہم عید کی خوشیوں میں اپنے ناراض رشتہ داروں اور مسلمان بھائی بہنوں سے صلح کر لیں ، اگر صلح نہ ہو پائے تو کم از کم صلح کی کوشش تو کر ہی لیں کہ ہم زیادہ خیر والوں میں سے ہو جائیں ،
یقین جانیے اپنی ناراضگی اور غصے پر قابو پا کر دوسروں کو معاف کر دینا بڑی ہی عظمت والا کام ہے اور عظیم لوگوں کا کام ہے
((((( وَالَّذِينَ يَجتَنِبُونَ كَبَائِرَ الإِثمِ وَالفَوَاحِشَ وَإِذَا مَا غَضِبُوا هُم يَغفِرُونَ ::: اور وہ جو بڑے گناہوں اور بے حیائی والے کاموں سے دُور رہتے ہیں اور جب انہیں کوئی غصےوالا معاملہ پیش آئے تو وہ معاف کر دیتے ہیں ))))) سورت الشُوریٰ/ آیت 37 ،
تو کیا ہم یہ پسند نہ کریں گے کہ عید کے دنوں میں ، عید کی خوشیوں میں اس ایمانی خوشی کا اضافہ بھی کریں عید کو خوشی کو اس طرح منائیں کہ اپنی ناراضگیاں ختم کر کے اپنی رشتہ داریاں اور اپنی اسلامی اخوت کو بحال کریں ،
کیا آپ بھی میرے ساتھ ساتھ یہ ارادہ نہیں کریں گے کہ اللہ کی طرف عطاء کردہ دونوں عیدوں کو اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت والے کاموں سے بھر دیں گے اور اللہ کی رضا کے حصول میں گذاریں گے اور ہر اس کام سے نہ خود باز رہیں گے بلکہ اپنے اھل خانہ اور اھل خاندان اور رشتہ داروں اور دوستوں اور مسلمان بھائی بہنوں کو بھی باز رہنے کی تلقین کریں گے جو کام اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ علی آلہ وسلم کی نافرمانی ہیں اور یقیناً اللہ کی ناراضگی کا سبب ہیں ، پس آخرت کی تباہی ہیں ،
کیا میرے ساتھ ساتھ آپ یہ یاد رکھیں گے کہ عید کھانے پینے ، غریبوں کو کھلانے پلانے ، شرعی حدود وقیود میں رہتے ہوئے خوشی منانے اور عید دُنیا اور آخرت کی راحت کے حصول کا دن ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ توفیق عطاء فرمائے کہ ہم اس کے عطاء کردہ اِن تہواروں کو اس کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اطاعت میں گذاریں۔ و السلام علیکم۔

Tuesday 19 July 2011

پیغامِ آزادی

بسم اللہ الرحمن الرحیم


پاکستان بنانے کے لیے جس طرح ہمارے آباؤاجداد نے قربانیاں دی تھیں اس کا مقصد صرف یہی تھا کہ مسلمانانِ ہند کسی ایسے ملک کی بنیاد رکھیں کہ جہاں ہم اللہ کے قانون :::
قرآن و سنت::: کے مطابق زندگی گزار سکیں اور اس طرح آخرت میں سرخرو ہوسکیں اس پاک مقصد کے لیے مسلمانوں نے اپنی جان، مال، عزت و آبرو کی قربانی دی اور پاکستان کا مطلب بھی یہی کیا کہ لا الہ الا اللہ یعنی پاکستان میں اللہ کے قوانین چلیں گے انگریز یا انسانوں کے بنائے قوانین نہیں چلیں گے، مگر افسوس صد افسوس کہ آج پاکستان کی عمر ۶۴ سال ہونے کو آئی مگر یہ عوام کا خواب شرمندہ تعمیر نہیں ہوسکا اور آج یہاں ابھی تک انگریز کا بناہوا قانون ہی چل رہاہے،

کیا اُس وقت کے مسلمانوں نے ۱۵۰۰۰۰۰، لاکھ عورتوں، بچوں، جوانوں اور بڑھوں نے اس لیے قربانیاں دیں تھیں کہ یہاں پھر وہی کافروں کا نظام نافذ العمل رہے؟؟؟

کیا ہماری وہ ہزاروں مائیں بہنیں جن کو ہندو اور سکھوں نے اغوا کر لیا تھا اور ان کے ساتھ انسانیت سوز مظالم کیے گے، کیا وہ یہی چاہتی تھیں جو آج کا پاکستان ہے؟؟؟
مسلمانوں کے وہ معصوم بچے جنہوں نے ابھی زندگی کی کوئی خوشی نہیں دیکھی تھی اور جنہوں نے اپنے والدین کی ہاں میں ہاں ملا کر پاکستان کی تحریک میں شرکت کی اور اپنی جان کی قربانی پیش کی کیا وہ ایسا ہی پاکستان چاہتے تھے کہ جہاں ظلم کا راج ہو انصاف کو قیدی بنالیا گیا ہو؟؟؟

وہ مناظر آج بھی جب ہم دیکھتے ہیں تو ہماری روح کانپ جاتی ہے کہ کتنے ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گے مسلمانانِ ہند پر اور یہ ظلم صرف اس لیے کیے گے کہ مسلمان اپنا ایک علیحدہ ایسا ملک چاہتے تھے جہاں انگریزی نظام نہ ہو بلکہ وہاں اللہ کا دیا نظام ہو اور ہم آزادی سے اس نظام کے تحت زندگی گزار سکیں۔

مگر افسوس کہ ہمارے آباؤاجداد کی وہ تمنا و آرزو آج تک پوری نہیں ہوسکی کہ جس کی خاطر پندراں لاکھ مسلمانوں نے قربانی پیش کی تھی۔

یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ کچھ نام کے دانشور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ محمد علی جناح صاحب نے پاکستان اسلامی سٹیٹ بنانے کے لیے نہیں بنایا تھا بلکہ وہ لبرل ریاست بنانا چاہتے تھے اور وہ اس کے لیے دلیل کے طور پر محمد علی جناح صاحب کی وہ تقاریر پیش کرتے ہیں جن میں انہوں نے ایسے الفاظ کا استعمال کیے تھے کہ جو ان کے لبرل ازم کو تقویت دیتے ہیں، اس بات سے قطع نظر کہ محمد علی جناح صاحب کیا چاہتے تھے یہ بات ۱۰۰ فیصد طے ہے کہ ہندوستان کے مسلمان بہرحال یہ نہیں چاہتے تھے کہ پاکستان میں لبرل قسم کا کوئی نظام چلے بلکہ وہ پاکستان کا مطلب یہ کرتے تھے کہ پاکستان کامطلب کیا
لا الہ الا اللہ اگر مسلمانانِ ہند پاکستان کو کیمونسٹ ،لبرل یا جمہوری ریاست بنانا چاہتے ہوتے تو وہ پاکستان کا مطلب لا الہ الا اللہ ہرگز نہ کرتے۔

پیغامِ آزادی:

آج بھی اگر ہم کو اسلام اور پاکستان سے محبت ہے تو اس کا تقاضہ یہی ہے کہ ہم آج بھی پاکستان میں صحیح اسلامی نظام کے لیے کوشش کریں کہ جس کے لیے ہمارے آباؤاجداد نے پاکستان بنانے اور پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے لیے قربانیاں دی تھیں،

ہر تحریک اور انقلاب ہمیشہ قربانیاں دینے سے ہی کامیاب ہوتے ہیں اگر ہم واقعی اسلامی نظامِ حیات کے تحت زندگی گزارنا چاہتےہیں تو اس کے لیے سب سے پہلے ہم سب کو آپس میں متحد ہونا ہوگا آپس کے اختلافات کو ختم کرنا ہوگا،

ہمارے درمیان جو قوم پرستی کی دیواریں کھڑی کی گئی ہیں ان کو گڑانا ہوگا، ہم کو دین اسلام کی تعلیمات کی طرف رجوع کرنا ہوگا اور آپس کے تعلقات کو اسلامی تعلیمات کے مطابق مستحکم کرنا ہوگا،

ہم سب کو مل کر اللہ کی رسی
:::قرآن و سنت::: کو مضبوطی سے پکڑنا ہوگا، اور نئے نئے فتنوں اور فسادات سےخود بھی بچنا ہوگا اور اپنے مسلمان بھائیوں کو بھی ان فتنوں سے بچانا ہوگا،

پاکستان میں جو علم کی کمی اور جہالت ہے اس کو سب مل کرہی ختم کرسکتے ہیں اس لیے بھی ہم سب کو مل جل کر تعلیم کے فروغ کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا،

اتحاد میں برکت ہے یہ ہم سب کو علم ہے مگر کیا وجہ ہے کہ ہم پھر بھی آپس میں متفرق ہیں؟؟؟ آئیں آج عہد کریں کہ آپس کے چھوٹے بڑے سبھی اختلافات کو قرآن و سنت کی روشنی میں حل کریں گے اور امتِ محمد ﷺ کو متحد کرنے کے لیے کوشش کریں گے نہ کہ اس کو مزید منتشر کریں گے،

اسلام میں رنگ و نسل، زبان ومکاں، حسب و نسب کا کوئی امتیازی حکم نہیں ہے جس نے بھی اللہ کی ایکتائی کا اور محمد ﷺکی رسالت کا اقرار کیا اور اس کلمے کے تقاضے پورے کیے وہ اب مسلمان ہےاور سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں سب پر ایک دوسرے کا خون، مال، عزت اور آبرو حرام ہے، کوئی کسی کی غیبت نہ کرئے، کوئی کسی پر بہتان نہ لگائے، کوئی کسی کا مال ناحق نہ کھائے، کوئی کسی کو دھوکہ نہ دے، کوئی کسی کو قتل نہ کرئے، کوئی کسی کو حقیر نہ جانے، کوئی کسی کو ذلیل نہ کرئے، کوئی کسی کی عزت پامال نہ کرئے ، کوئ کسی کا حق غصب نہ کرئے، تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پھر ہمارا معاشرہ ایک اسلامی معاشرہ بننے کی طرف اپنا پہلا قدم اُٹھائے گااس لیے بہنوں اور بھائیو آو آج اس بات کا عہد کریں کہ ہم سب اپنے اندر سے ایسی برُائیاں ختم کرنے کی اپنی سی کوشش کریں گے جو معاشرے کے بگاڑ کا سبب بنتی ہیں ۔
باتیں تو بہت ہیں مگر مختصراً اتنا ہی کافی ہے اگر ہم ان پر بھی عمل کرلیں تو ہم ایک بہترین معاشرہ بن سکتے ہیں۔
میری طرف سے سب مسلمان بہن اور بھائیوں کو جشنِ آزادی اور رمضان کا مبارک مہینہ مبارک ہو۔

.